لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

گزشتہ دنوں یومِ تکریمِ شہدا سرکاری سطح پر اس عزم کے ساتھ منایا گیا کہ شہدا کی عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ 9 مئی کے اُس خوفناک دن جو مناظر دیکھنے کو ملے ان میں سے ایک منظر شاید طویل عرصے تک میرے ذہن پر نقش رہے گا۔

اپنے قائد کی گرفتاری کی وجہ سے پبھرے ہوئے مجمعے نے یادگارِ شہدا پر نصب کیپٹن کرنل شیر خان کا مجسمہ بھی توڑ دیا۔ شاید ان لوگوں کو لگا ہو جیسے وہ کوئی انقلاب لارہے ہیں، لیکن مجھے تو شہید کے گھر والوں کا خیال آرہا ہے جن کا غم دوبارہ تازہ ہوگیا ہوگا۔ وہ لوگ تو پہلے ہی 1999ء کی کارگل جنگ کے دوران بہت کچھ سہہ چکے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے اس حوالے سے ڈان میں ایک کالم لکھا تھا جو کہ 25 نومبر 2011ء کو شائع ہوا تھا۔ اس کالم کی بنیاد بی بی سی اردو سروس کی سربراہی کے دوران میرے دفتر میں آنے والی ایک فون کال تھی۔ یہاں میں اس کالم کے کچھ اقتباسات نقل کررہا ہوں۔

’فون پر موجود وہ ڈرا ہوا شخص پاکستان آنے کے لیے شارجہ ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ اس نے اپنی شناخت کرواتے ہوئے مجھ سے کہا کہ اسے بی بی سی اردو سروس کی مدد کی ضرورت ہے، اسے معلوم ہوا ہے کہ بی بی سی نے کارگل میں اس کے بھائی کی ہلاکت کی خبر نشر کی ہے۔

’چند منٹوں کے اندر ہی میں نے سری نگر میں اپنے نامہ نگار الطاف حسین سے رابطہ کیا جنہوں نے مجھے بتایا کہ بھارتی فوج کارگل سے کچھ لاشیں سری نگر لائی ہے اور انہیں میڈیا کو دکھایا ہے۔

’الطاف نے ایک نوجوان افسر کے بارے میں بھی بتایا جس کی شناخت اس کی جیب میں موجود خط سے ہوئی ہے جو اس افسر کی بہن نے لکھا تھا۔ میں نے شارجہ سے آنے والے نمبر پر دوبارہ رابطہ کیا اور اس شخص کو اس خط اور اسے بھیجنے والے کے نام سمیت تمام تفصیلات بتادیں۔

’فون کی دوسری جانب موجود شخص خاموش ہوگیا لیکن فوراً ہی اس نے خود پر قابو پایا اور کہا کہ یہ یقیناً میرا چھوٹا بھائی کیپٹن کرنل شیر خان ہے۔ میری بہن نے مجھے اس خط کے بارے میں بتایا تھا اور کوئی دوسرا اس کا نام نہیں جانتا‘۔

’’میں ہمیشہ آپ کا مشکور رہوں گا۔ ہماری حکومت ہمیں کچھ نہیں بتارہی۔ درحققیت انہوں نے ہمیں کئی مہینوں سے کچھ نہیں بتایا ہے جب سے وہ اپنے طویل اسائنمنٹ پر گیا تھا۔ وہ این ایل آئی (ناردرن لائٹ انفنٹری) میں تعینات تھا۔

’’ہمیں جاننے کا حق ہے۔ مجھے غلط مت سمجھیے گا، ہم کئی بھائی ہیں اور ہر کوئی بہ خوشی پاکستان کے لیے اپنی جان دے سکتا ہے۔ لیکن آخر ہماری اپنی حکومت اپنے شہیدوں کو کیوں نہیں اپناتی؟ شاید حکومت کو ہمارے بھائی کی قربانی پر فخر نہ ہو لیکن ہمیں ہے۔ وہ ہم سے آگے نکل گیا ہے۔‘‘

میں نے اپنے کالم میں بھی یہی لکھا تھا کہ ’کیا یہ سن کر آپ بھی خاموش نہیں ہوجائیں گے؟۔۔۔ فون بند ہونا میرے لیے ایک طرح کی راحت تھی۔۔۔ جب اس فوجی کے بھائی نے یہ شکایت کی کہ انہیں کچھ بتایا نہیں گیا تو مجھے لگا ایسا آپریشنل وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہوگا۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ ایئر فورس اور نیول چیف کو بھی اس کا علم نہیں تھا‘۔

’اس آپریشن کو شروع میں کچھ پاکستانی دفاعی تجزیہ کار ’ٹیکٹیکل طور پر شاندار‘ قرار دے رہے تھے لیکن جلد ہی یہ اسٹریٹجک لحاظ سے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا کیوں کہ اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے کسی مشکل صورت حال میں واپس نکلنے کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی‘۔

’جس وقت کیپٹن کرنل شیر خان کی میت پاکستان کو واپس کی جارہی تھی تو اس وقت ہندوستانی بھی ان کی بہادری کا ذکر کررہے تھے کہ اس نوجوان افسر نے کس طرح آخری دم تک مقابلہ کیا۔ بلآخر پاکستان نے بھی ان کی بہادری کو تسلیم کیا اور ان کو نشانِ حیدر سے نوازا۔۔۔ لیکن جن لوگوں نے اس نوجوان افسر اور اس جیسے سیکڑوں سپاہیوں کو ایک بے مقصد لڑائی میں جھونکا تھا۔۔۔ ان سے حساب نہیں لیا گیا‘۔

کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کا ذکر بھارتی فوجی کمانڈر کے اس نوٹ میں بھی ہے جو نوٹ ان کی میت کے ساتھ آیا تھا۔ اس بات پر جتنا زور دیا جائے وہ کم ہے کہ ایک ایسے شہید کی یادگار کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ضابطے کے مطابق سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

ساتھی ہی ناکام سیاسی انجینیئرنگ کے منصوبہ سازوں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے کیونکہ ان کا جرم تو ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں سے زیادہ سنگین ہے جو اپنے جذبات کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کے خطرے سے دوچار تھے۔

’ایک صفحے‘ کی بنیاد پر کھڑے سیاسی نظام کی عمارت جو ہم آہنگی کی نمائندگی کرتی تھی اس کے تضادات ہی کچھ ایسے تھے کہ وہ جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی تھی۔ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اس جن کو بوتل سے باہر لانے کی حماقت کے سفاکانہ اور دردناک نتائج ہیں۔

اس وقت کہ جب سیاست ہی ہمارے تخیلات اور ہمارے مباحث پر حاوی ہے تو اس دوران ہماری معیشت ڈوب رہی ہے۔ ہمارے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھی جد و جہد کررہے ہیں۔ یقینی طور پر چوتھائی ارب کے قریب پہنچتی آبادی میں ایک تہائی سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔

یہ سمجھنے اور کہنے کے لیے کسی کا سائنسدان ہونا ضروری نہیں ہے کہ ہماری ترجیحات ہی غلط ہیں۔ ہم معاشی محاذ پر بس وقتی اقدامات کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ کیا کسی نے روزگار کے مواقع اور آمدن میں اضافہ نہ ہونے کے اس خطے کی بڑھتی آبادی پر اثرات کی جانب توجہ دی ہے؟

ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس کا جواب شاید سب ہی کو معلوم ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے سب نے چپ رہنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یا تو خوف ہے یا ہمارے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات جو کہ ہر چیز پر حاوی آجاتے ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اس وقت تک بہتری کی جانب نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرلیں، جس مشکل میں ہم ہیں اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا، چاہے ہمیں ایسا کوئی کام کرنے کی عادت نہ ہو۔

میں اس وسیع تر احتساب کی امید تو کررہا ہوں لیکن اس وقت میں جو منظر دیکھ رہا ہوں اس میں ایک سیاسی جماعت کو لوگ الوداع کہہ رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے پارٹی چھوڑنے والے ان تمام لوگوں نے ایک ہی اسکرپٹ یاد کی ہوئی ہے۔ تو یہ ہے اس ایک صفحے پر ہونے کی (انجینیئرڈ) ہم آہنگی کا نتیجہ۔ لیکن کیا یہ کسی کے لیے حیران کن ہے؟


یہ مضمون 28 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں