Dawnnews Television Logo

یومِ تکبیر: ’سرمئی پہاڑ دھماکے سے سنہری ہوگئے تھے‘

'ہمیں اپنے پیروں کے نیچے زمین ہلتی محسوس ہوئی لیکن نظروں کے سامنے جو منظر تھا وہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ سرمئی پہاڑ دھماکے سے سنہری ہوگئے تھے'۔
شائع 28 مئ 2023 11:07am

آج 28 مئی ہے، ٹھیک 25 سال قبل آج ہی کا دن تھا کہ جب بلوچستان کے دور افتادہ علاقے چاغی کی سرزمین میں ارتعاش پیدا ہوا اور چاغی کے ایک سنگلاخ پہاڑ سے ریت دھواں بن کر اڑنے لگی۔ زمین میں پیدا ہونے والا یہ ارتعاش دراصل پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کا اعلان تھا، یہ اس بات کا بھی اعلان تھا کہ اب جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برابر ہوچکا ہے کیوں کہ یہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے کامیاب ایٹمی دھماکوں کا اعلان تھا۔

ان دھماکوں کے ساتھ نہ صرف پاکستان کو دنیا کی 7ویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے 11 اور 13 مئی 1998ء کو کیے گئے ایٹمی دھماکوں کا حساب بھی برابر کردیا تھا۔

1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی، 1974ء میں بھارت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی تجربے اور پھر مئی 1998ء میں کیے جانے والے ایٹمی تجربوں کے بعد پاکستان کی بقا کو واقعی خطرات لاحق ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کو یہ جواز اور موقع فراہم کیا کہ وہ بھی ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کے سامنے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کرے۔

آج یومِ تکبیر پر ہم قارئین کو 25 برس پیجھے لیے جارہے ہیں تاکہ عینی شاہدین کی زبانی ان حالات و واقعات کی تصویر پیش کی جائے جن سے گزر کر پاکستان نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔

1990ء کی دہائی میں صحافت سے وابستہ افراد مئی 1998ء کی ہیجان خیزی کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ 11 اور 13 مئی کو ہمارا پڑوسی بھارت 5 ایٹمی دھماکے کرچکا تھا جس کے ساتھ ہی بھارتی سیاستدانوں کی شعلہ افشانی بھی شروع ہوگئی تھی۔ ان کے نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر دھمکی آمیز انداز میں بیان دے رہے تھے کہ ’پاکستان خبردار ہوجائے کیونکہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب خطے میں صورتحال تبدیل ہوگئی ہے‘۔

  بھارت نے 11 مئی کو ایٹمی دھماکے کیے تھے— تصویر: ڈان
بھارت نے 11 مئی کو ایٹمی دھماکے کیے تھے— تصویر: ڈان

  بھارت کی جانب سے 13 مئی کو بھی ایٹمی دھماکے کیے گئے— تصویر: ڈان
بھارت کی جانب سے 13 مئی کو بھی ایٹمی دھماکے کیے گئے— تصویر: ڈان

پاکستان بھر میں عوام کے اضطراب کی کوئی حد نہیں تھی۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستانی قوم کو للکارا تھا، اب یہ ملک کی سالمیت ہی نہیں بلکہ حمیت کا بھی مسئلہ تھا۔ عوام یہ جاننے کو بے چین تھے کہ ہم بھارت کو کیا جواب دیں گے اور کب دیں گے۔ سب کی نظریں پرنٹ میڈیا پر تھیں۔ تب پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا رائج نہیں ہوا تھا اس لیے پل پل کی بریکنگ نیوز نہیں دی جاتی تھی۔ صرف پاکستان کا سرکاری ٹیلی وژن مقررہ اوقات میں خبرنامہ نشر کرتا تھا۔

پرنٹ میڈیا میں ایٹمی دھماکے کے متعلق خبریں دینے کی دوڑ لگی تھی۔ اس زمانے میں سب سے پہلے خبر دے کر اس پر ’فلاں روزنامہ بازی لے گیا‘ کی سرخی لگانے کا رجحان تھا۔

اخبارات ’بریکنگ نیوز‘ کے لیے خصوصی ایڈیشن (ضمیمہ/سپلیمنٹ) شائع کرتے تھے۔ ہمارا اخبار بھی پاکستان کے ممکنہ ایٹمی دھماکے کے لیے ضمیمہ چھاپنے کی تیاری کررہا تھا۔

ایک یادگار انٹرویو

ہمیں یاد ہے کہ ہمارے صحافتی کریئر کا یہ ابتدائی دور تھا، اس وقت سر پر کچھ کر دکھانے کی دُھن سوار تھی۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے ضمیمے کے لیے ضمنی رپورٹس تیار کرنے کو کہا تو ہم نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی چھوٹی بہن رضیہ حسین کو ڈھونڈ نکالا جو کراچی میں مقیم تھیں۔ ڈاکٹر صاحب جب بھی کراچی آتے انہیں کے ہاں ٹھہرتے تھے۔

  ڈاکٹر عبد القدیر خان سابق صدر غلام اسحٰق خان کے ساتھ— فائل فوٹو
ڈاکٹر عبد القدیر خان سابق صدر غلام اسحٰق خان کے ساتھ— فائل فوٹو

رضیہ صاحبہ سے ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جوش وجذبے اور ممکنہ ایٹمی دھماکے کے متعلق انٹرویو کرلیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت سے صعوبتیں اٹھا کر، ہجرت کرکے پاکستان آنے والے ان کے خاندان کے لیے آزادی کے معنی زندگی ہے۔ انہوں نے بتایا 1970ء کی دہائی میں بھارت کی ایٹمی صلاحیت کے اظہار کے بعد ان کے بھائی نے اس وقت تک کوئی لمحہ سکون سے نہیں گزارا جب تک کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع نہیں ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر ہالینڈ سے اپنا شاندار کیریئر چھوڑ کر صرف اسی مقصد کے لیے پاکستان آئے تھے۔

ایٹمی سائنسدان کی ہمشیرہ بات چیت میں بہت محتاط تھیں تاہم ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان کی بے چینی عیاں تھی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جلد ازجلد بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ (رضیہ حسین کا ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات سے کچھ عرصہ قبل کورونا کے باعث انتقال ہوگیا تھا)۔

'پہلے ہی آگاہی مل گئی تھی'

روزنامہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر برائے کراچی، سینیئر صحافی سجاد میر 28 مئی کے متعلق اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اندرونی و بیرونی دباؤ کے باوجود تہیہ کرلیا تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کرے گا۔ انہوں نے یہ بات 28 مئی سے پہلے ہی اپنے چند قریبی ساتھیوں اور ایڈیٹرز کو بتا دی تھی۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم ان میں سے ایک تھے۔ ان کی ہدایت پر ہم نے خصوصی ایڈیشن تیار کر رکھا تھا البتہ شہ سرخی اور خبر کی جگہ چھوڑ دی تھی۔

’28 مئی کو جیسے ہی دھماکے ہوئے، ہمیں فون پر اطلاع مل گئی۔ میں گھر سے فوراً دفتر پہنچا۔ اُس روز نیوز روم کا ماحول ہی الگ تھا۔ ضمیمے کی اشاعت اگرچہ غیر معمولی سرگرمی ہوتی ہے لیکن پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر پر نیوز روم خوشی سے جھوم رہا تھا۔ سیاسی رہنما مٹھائیاں لےکر پہنچ رہے تھے۔ کاتب، کمپوزرز، رپورٹرز، ایڈیٹرز سمیت اخبار کا تمام عملہ جلد سے جلد یہ اطلاع ہم وطنوں کو پہنچانے کے لیے جت گیا تھا۔ ہاکرز ایجنٹس کے ہمراہ پریس کے باہر اپنی سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں لیے تیار کھڑے تھے اور جیسے ہی ضمیمہ تیار ہوا، ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہونے لگا۔ ہر سڑک، چوراہے پر ہاکروں کی آواز گونج رہی تھی ’پاکستان نے ایٹمی دھماکا کردیا‘۔ لوگ دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے تھے اور سڑکوں پر ہی جشن منانے میں مشغول تھے‘۔

  پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کیے— تصویر: ڈان
پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کیے— تصویر: ڈان

سجاد میر نے کہا کہ ’ایٹمی دھماکے پاکستان کی دفاعی قوت کا اعلان تھے۔ اس روز ہر پاکستانی فخر محسوس کررہا تھا کہ اس کی افواج دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے کچھ عرصے بعد ان سمیت چند ایڈیٹرز کو اسٹریٹجک سینٹر کا دورہ کروایا گیا تھا جہاں افواجِ پاکستان کی ہائی کمان کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے بارے میں تفصیلی طور پر بتایا گیا۔

سجاد میر نے کہا کہ ’بلاشبہ اس امر میں دورائے نہیں اور دنیا اسے مانتی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور کنٹرول سسٹم نہایت مضبوط، مؤثر اور بہترین ہے۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کارنامہ پلوٹونیم کے بجائے یورینیم کی افزودگی سے کامیاب تجربہ کرنا تھا‘۔

مزید کہا کہ ا’یٹمی دھماکوں کے مضمرات میں حسبِ توقع پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا ہوا۔ اس وقت وزیر خزانہ سرتاج عزیز تھے، گورنر اسٹیٹ بینک کے مشورے سے انہوں نے فارن کرنسی اکاؤنٹ فریز کردیے جو اس وقت کے مطابق درست فیصلہ تھا۔ آج بھی معاشی پریشانیوں کا تسلسل اسی سلسلے کی کڑی ہے تاہم قوم کے لیے اپنی سلامتی اور آزادی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے’۔

  دھماکوں کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹس فریز کردیے گئے— تصویر: ڈان
دھماکوں کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹس فریز کردیے گئے— تصویر: ڈان

'سرمئی پہاڑوں کو سنہری ہوتے دیکھا'

غیر ملکی میڈیا سے وابستہ صحافی عاصم تنویر اُن دنوں اسلام آباد میں ’رائٹرز‘ کے نمائندہ تھے۔ وہ 28 مئی 1998ء کے اپنے تجربے کے متعلق بتاتے ہیں کہ ’انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستانی عوام کی جانب سے جوابی کارروائی کے لیے حکومت پر بہت دباؤ تھا جبکہ دوسری جانب امریکا اور دیگر کی جانب سے دھماکے نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔ اسلام آباد میں غیر ملکی صحافی ہی نہیں بلکہ سفارتخانوں کے لوگ بھی دن رات خبروں کی ٹوہ میں تھے۔ نہایت سنسنی خیز ماحول تھا۔

’اسی دوران 26 مئی کو مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ فورسز کے ایک آفیسر نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں ملتان میں تھا انہیں بتا دیا کہ آج رات واپس آرہا ہوں۔ انہوں نے کہا اسلام آباد پہنچتے ہی رابطہ کریں۔ رات کو جب میں ایئرپورٹ پہنچا تو ایک صاحب میرے نام کی تختی لیے پہلے سے وہاں موجود تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ایک معروف جگہ لے گئے۔ وہاں موجود افسروں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ 2، 3 دن ہمارے ساتھ رہیں۔ 27 مئی کو علی الصبح روانگی ہے، آپ اپنے گھر والوں کو بتا دیں۔ مجھے صاف بتایا نہیں گیا تھا لیکن میں سمجھ گیا تھا کہ یہ بہت خاص اسائنمنٹ ہے۔

’اگلی صبح ہم سی 130 سے کوئٹہ گئے۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاغی پہنچے۔ یہاں پاکستان کی ایٹمی ٹیم کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک بھی اپنے لوگوں کے ہمراہ موجود تھے۔ رات کو کھانے پر سب اکٹھے ہوئے تو میں نے ڈاکٹر ثمر سے پوچھا ’سر کیا پلان ہے؟‘ تو وہ مسکراتے ہوئے جواباً بولے ’آپ کو بہت جلدی ہے۔‘ میں نے کہا کہ مجھے واپس جاکر کچھ اسائنمنٹس پر کام کرنا ہے۔ جس پر ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا ’اچھا، ہم آپ کو کل ہی واپس بھیج دیتے ہیں‘۔ یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ کل پاکستان کا ’گولڈن ڈے‘ ہے۔

’28 مئی کی صبح ہمیں کنٹرول روم لے جایا گیا۔ یہاں ماحول میں ایک بے چینی واضح محسوس ہورہی تھی۔ افسران چائے پینے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اسکرینز پر ہم نے دیکھا کہ انجینئرنگ کور نے نہایت تندہی سے پہاڑ کے دامن میں سرنگ بنائی تھی۔ پہاڑوں کی جانب کیمرے سیٹ کردیے گئے تھے۔ بٹن دبانے سے پہلے فلک شگاف آواز میں نعرہ تکبیر بلند کیا گیا۔ ہم سب نے بھی اسی جوش سے ’اللہ اکبر‘ کی آواز بلند کی اس کے بعد بٹن دبا دیا گیا۔ چند سیکنڈز کے بعد فضا دھماکوں کی آواز سے سے گونج اٹھی۔ ہمیں اپنے پیروں کے نیچے زمین ہلتی محسوس ہوئی لیکن نظروں کے سامنے جو منظر تھا وہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ سرمئی پہاڑ دھماکے سے سنہری ہوگئے تھے۔

’پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکا کرلیا تھا۔ سائنسدان بتا رہے تھے کہ ہماری ٹیکنالوجی بھارت سے بہتر ہے۔ اس علاقے سے آبادی کو پہلے ہی خالی کروالیا گیا تھا۔ دھماکے کے بعد انجنیئرنگ کور کے لوگوں نے موقع پر ہی سجدے کیے، نوافل پڑھے، اب ساری ٹینشن دور ہوگئی تھی۔ جشن کا سماں تھا، فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی اور ایک دوسرے کو مٹھائی کھلائی جارہی تھی۔

عاصم تنویر بتاتے ہیں کہ انہیں ایٹمی دھماکے کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ان کے مطابق ’جنرل حمید گل نے ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزاز میں ایک پروگرام میں بلایا تھا۔ پُرمسرت ماحول تھا اور وہاں چاغی کے پہاڑوں کے ماڈل پر مبنی کیک بھی کاٹا گیا۔ اس موقع پر میری ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا ایٹمی پروگرام میری زندگی کا حاصل ہے۔ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 18 سے 19 گھنٹے تک کھڑے رہ کر کام کیا ہے۔ ہم صبح ناشتہ کرتے تھے تو اس کے بعد رات کا کھانا کھاتے تھے۔ ہماری جوہری توانائی کی موجودگی میں دشمن ہمیں نقصان پہنچانے سے پہلے سو بار سوچے گا‘۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ’ایٹمی طاقت کے حصول میں جہاں تمام حکومتوں، افواج پاکستان کا مرکزی کردار ہے وہاں ملک میں اور ملک سے باہر موجود پاکستانیوں نے بھی دامے درمے سخنے نہایت قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم جیسا چاہتے تھے گوجرانوالہ کی انڈسٹریز/فاؤنڈریز نے ویسے ہی کل پرزے، مشینری ہمیں تیار کرکے دیں۔ انہوں نے کہا ہم نے بہترین اور جدید ترین پروگرام تیار کیا ہے جو بھارت کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے‘۔

'قوم آپ کا دھماکا کر دے گی'

اُردو ڈائجسٹ کے مدیر اور سینیئر صحافی الطاف حسن قریشی ان شخصیات میں سے ایک تھے جنہیں ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد چاغی کا دورہ کروایا گیا۔

الطاف حسن قریشی صاحب نے ہمیں بتایا کہ ’28 مئی سے پہلے ملکی سیاست میں ہیجان خیز اتار چڑھاؤ آئے تھے۔ پاکستان کو ایٹمی دھماکے سے روکنے کے لیے جہاں بیرونی دنیا سے دھونس، دھمکی کے ساتھ پُرکشش ترغیبات کا سلسلہ جاری تھا وہیں ملک کے اندر بھی ایک طبقہ پاکستان پر پابندیوں اور دیگر عوامل کے تناظر میں دھماکے کے حق میں نہیں تھا۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے شدید دباؤ کا باعث تھی‘۔

  لاہور میں عوام حکومت سے ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے— تصویر: ڈان
لاہور میں عوام حکومت سے ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے— تصویر: ڈان

الطاف صاحب نے بتایا کہ ’اسی ماحول میں 15 مئی کو نوازشریف نے وزیراعظم ہاؤس میں ایڈیٹرز کو طلب کیا۔ 3 گھنٹے کی اس ملاقات میں انہوں نے ہر ایک سے فرداً فرداً رائے لی۔ بعض نے دبے لفظوں میں دھماکے کے مضمرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جوابی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی تقریب میں نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’میاں صاحب، اگر آپ نے دھماکا نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔‘ مجید نظامی کا یہ فقرہ دراصل قوم کے جذبات کی عکاس تھا‘۔

الطاف قریشی نے کہا کہ ’28 مئی سے پہلے عوام میں یہ تاثر موجود تھا کہ پاکستان کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز کے تحت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزاز میں تقریب کی گئی جس میں اُنہیں سونے کا تاج پہنایا گیا اور ’مین آف نیشن‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا ’میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ ہندوستان کو ایسا جواب دیں گے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے‘۔

  سری نگر کے شہری اخبار میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر پڑھتے ہوئے— تصویر: ڈان
سری نگر کے شہری اخبار میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر پڑھتے ہوئے— تصویر: ڈان

الطاف صاحب نے اپنے چاغی کے دورے کے بارے میں بتایا کہ ’6 جون 1998ء کو اس وقت کے وزیرِ اطلاعات مشاہد حسین سید ایڈیٹرز کو چاغی کے دورے پر لے گئے۔ ہم نے دھماکے کے مقام کا معائنہ کیا، اردگرد کے پہاڑوں کے مقابلے میں دھماکے کے مقام پر پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ ان پہاڑوں کے سامنے کھڑے ہوئے ہمیں اپنی دفاعی قوت پر ناز محسوس ہورہا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان نے بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں 6 دھماکے کیے۔

’وزیراعظم نواز شریف کو ان دھماکوں سے روکنے کے لیے امریکا کی جانب سے 5 ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ افواج پاکستان کے 3 سروسز چیفس میں سے ایک نتائج کے تناظر میں، دھماکا کرنے کے حق میں نہیں تھے، دوسرے حق میں تھے اور تیسرے نے اس کا فیصلہ وزیراعظم پر چھوڑ دیا تھا۔ بہرحال پاکستان یہ کر گزرا۔ ہم ایک دن وہاں رہے۔ کہوٹہ گئے وہاں بھی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ مجموعی طور پر ایک خوشی کا ماحول تھا‘۔

الطاف حسن قریشی نے دھماکوں کے بعد کی صورتحال کے متعلق کہا کہ ’پاکستان کو اقتصادی مشکلات پیش آئیں، امریکا کا رویہ سخت ہوگیا تھا تاہم پاکستان کی حکومت نے اس کا سامنا کیا۔ اس وقت کےصدر اسحٰق خان معیشت کے ماہر بھی تھے ان کے مشورے شامل کیے گئے۔ پاکستانی قوم نے بہادری کا مظاہرہ کیا جبکہ تارکین وطن نے بھی بھرپور مدد کی‘۔

الطاف صاحب نے مزید کہا کہ ’اب ہماری قوم کے لیے چیلنجز پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بیرونی طاقتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے درپے ہیں جبکہ ہماری جوہری قوت ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے 17سال کی عمر میں بھارت سے ہجرت کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہندو اکثریت کس طرح مسلمانوں کا استحصال کرتی تھی۔ ایسے میں پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے حصول پاکستان کے لیے ان گنت قربانیاں دیں۔ ہماری نسل اس تناظر میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ہماری سلامتی کے لیے اہمیت بخوبی سمجھ سکتی ہے۔ اس کی حفاظت، سیاستدانوں اور تمام اداروں سمیت پوری قوم کی ذمہ داری ہے‘۔

ایک پاکستانی کا خط اور ڈاکٹر قدیر کا جواب

سماجی و ادبی شخصیت شگفتہ فرحت کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے قریبی تعلق رہا ہے جس کا ایک حوالہ بھارت کا شہر ’بھوپال‘ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انہیں اپنی جنم بھومی سے قدرتی لگاؤ تھا۔ شگفتہ فرحت کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی بھوپال سے ہے۔ انہوں نے ’تذکرہ شخصیات بھوپال‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے جس کی رونمائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خصوصی شرکت کی۔

28 مئی کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے شگفتہ فرحت نے کہا کہ ’ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی کوششوں کے ذریعے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کی وجہ سے ہمارے محسن، ہمارے ہیرو ہیں‘۔

  ایٹمی دھماکوں کو ایک سال مکمل ہونے پر کی جانے والی تقریب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد اور وزیر خارجہ سرتاج عزیز موجود ہیں— تصویر: ڈان
ایٹمی دھماکوں کو ایک سال مکمل ہونے پر کی جانے والی تقریب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد اور وزیر خارجہ سرتاج عزیز موجود ہیں— تصویر: ڈان

شگفتہ فرحت بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پہلی مرتبہ میرا رابطہ اس وقت ہوا جب پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب کو ایک تہینیتی خط لکھا جو ایک پاکستانی کے ان جذبات کی عکاسی کرتا تھا جو پاکستان کی جانب سے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے شاندار جواب پر ہر ایک محسوس کررہا تھا۔ میری اس خوشی کو ڈاکٹر صاحب کی جانب سے میری مبارکباد کے تحریری جواب نے دوبالا کردیا۔ یہ خط ان کے بہترین اخلاق اور عوام سے ان کی محبت کی عکاسی کرتا تھا‘۔

شگفتہ فرحت نے بتایا کہ بعد میں بھوپال کے چند مشترکہ عزیزوں کی بدولت ڈاکٹر صاحب سے مزید یاد آوری رہی۔ ان سے جب بھی فون پر گفتگو یا ملاقات ہوئی، ڈاکٹر صاحب کے جذبہ حب الوطنی نے متاثر کیا’۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام قوم کے لیے ایک انمول تحفہ ہے اس کی موجودگی میں دشمن ہمیں کمتر نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالٰی ہمیں ہمیشہ اس کی حفاظت کی توفیق دے اور پاکستان کو سلامت رکھے۔